سوالات سے پریشان: گزشتہ ایک سال سے ریاض میں ہوں اچھی جاب ہے، کسی برائی میں نہیں، اب گھر والے کہیں رشتہ طے کرتے ہیں تو لڑکی والے اپنے جاننے والوں کو میری چھان بین کیلئے بھیجتے ہیں، کئی بار لوگ مجھ سے مختلف طرح کے سوالات کرکے جاچکے ہیں، ان سے اُن کی تسلی تو ہوگی مگر مجھے اچھا نہیں لگتا۔ میرے دوست کتنے رشتے بتاچکے ہیں، دل نہیں مانتا، گھر والے ہی اچھا فیصلہ کریں گے، لوگوں کے عجیب سوالات سے پریشان ہوکر میں خود ان لوگوں کو مسترد کردیتا ہوں۔ (عبدالمجید‘ ریاض)
جواب: دراصل جو لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں وہ آپ کو جانتے نہیں اس لئے برا نہ مانیں۔ شادی پوری زندگی کا تعلق ہوتا ہے، جب تک شناسائی نہ ہوگی لوگ اپنی بیٹی کو کسی طرح آپ سے منسوب کریں گے، برا نہ مانیں گفتگو آپ کے تعارف کا بہترین ذریعہ ہے، اس سے آپ کی سوچ کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے اور آپ دوسروں کو بھی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں، غصے میں آکر کسی کو قبول یا مسترد نہیں کرنا چاہیے۔
شادی کی صحیح عمر:سوال: میری عمر 32 سال ہے ، اب تک شادی نہیں ہوسکی حالانکہ تعلیم یافتہ اور مناسب صورت شکل ہوں، احساس کمتری ہونے لگا ہے، فکر بڑھتی جارہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شادی کی صحیح عمر یہی ہے، اگر وقت نکل گیا تو اچھا رشتہ ملنا مشکل ہوجائے گا۔ (فائزہ‘ راولپنڈی)
جواب: آپ نے یہ نہیں بتایا کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا کررہی ہیں۔ شادی کی عمر پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے، اگر فکر کرنے سے شادیاں ہوا کرتیں تو یہ مسئلہ ہی نہ ہوتا جو آج کل اکثر گھروں میں ہے۔ رشتے کا گھر بیٹھ کر انتظار کرنا اور کچھ نہ کرنا بھی طبیعت میں بیزاری اور پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ بہتر ہے کہ تعلیم کا فائدہ اٹھائیں، اپنی صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے کوئی اچھی مصروفیت اپنائی جائے۔ رشتے کے لئے والدین قابل اعتبار لوگوں سے رابطہ کرسکتے ہیں یعنی جو نیک نام ہوں اور رشتہ کروانے میں دیانتداری سے بے لوث خدمت انجام دیتے ہوں۔ قسمت میں اچھا رشتہ ہوتا ہے تو جلد یا دیر سے مل جاتا ہے۔ اپنے لئے خود دعا کریں اس طرح قلبی اور ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔
میرا قصور کیا تھا؟: ہم دو بھائیوں کی شادی دو بہنوں سے طے ہوئی۔ پہلے بڑے بھائی کی شادی ہوئی، ایک سال سے زیادہ وہ ساتھ نہ رہ سکے کیونکہ بھائی اپنے آفس میں ایک لڑکی کو پسند کرتے تھے، اس نے اپنے شوہر سے طلاق لے کر بھائی سے کہا کہ تم نے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا تھا، بھائی دو بیویاں رکھنے کی حیثیت نہیں رکھتے‘ اس لئے انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، سارا سامان وغیرہ بھی دے دیا، میں اپنی منگیتر کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھا لیکن اس واقعے کے بعد اس نے خود منگنی ختم کردی جس کا مجھے بہت صدمہ ہے۔ بھائی سے بھی جھگڑا ہوتا رہتا ہے، نہ وہ یہ سب کرتے اور نہ مجھے بھگتنا پڑتا۔ امی ہم دونوں کو سمجھاتی ہیں، میں کہتا ہوں صرف بھائی کو سمجھائیں تو ان کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے۔ (زبیر‘ ملتان)
جواب: اب بھائی سے جھگڑا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جو تاثر خراب ہونا تھا وہ ہوچکا۔ جس گھر میں ایک بیٹی کی زندگی خراب ہوئی ہو اس گھر میں لوگ اپنی دوسری بیٹی کیسے دے سکتے ہیں اور وہ لڑکی بھی جب اپنی بہن کو دکھی دیکھتی ہوگی تو اس کو صدمہ ہوتا ہوگا۔ اسے حق تھا کہ وہ منگنی ختم کردے، اب آپ کو حقائق قبول کرلینے چاہئیں۔ والدہ کا خیال رکھنا سب سے اہم ہے، ان کے سکون کے بارے میں سوچیں اور خود کبھی کوئی ایسی خوشی حاصل نہ کریں جس میں دوسرے کو دکھ دیا جائے۔
افسوس ہوتا ہے: میں ہر موضوع پر بات کرسکتا ہوں، دوستوں کا گروپ ہویا کوئی تقریب، میں بولتا ہوں تو لوگ سنتے ہیں۔ اگر کوئی اختلاف کرنا چاہے تو اس کو موقع نہیں ملتا۔ اب میں نے محسوس کیا ہے کہ کچھ حاسد قسم کے لوگ میری بات نہیں سنتے بلکہ آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب قریبی دوست ایسا کریں۔ (کاشف‘ پشاور)
جواب:کچھ لوگ بولنے کے شوقین ہوتے ہیں وہ ہر موقع پر بے تکا بولتے ہیں لیکن ایسا بولنا جو بے مقصد ہو، جس میں صرف لوگوں کی توجہ کا حصول مقصود ہو، فضول ہوتا ہے۔ کچھ کہنے سے پہلے جاننا جس موضوع پر بات کرنا ہو اس کے بارے میں علم ہو اور بات کرنے کا موقع بھی ہونا ضروری ہے۔ اختلاف سے نہ گھبرائیں اور اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط ہرگز نہ کریں۔ اس حقیقت کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں کہ دوست ہوں یا رشتہ دار، کوئی آپ کی باتیں اور خاص طور پر بے موقع باتیں سننے کا پابند نہیں، اس لئے ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ آخری بات یہ ہے کہ عملی جدوجہد کے ذریعے خود کو بہترین انسان بنائیں۔ لوگ آپ سے بات کرکے خوش ہوں گے۔
اسے مجھ سے محبت ہے: میڈیکل کالج کی طالبہ ہوں، اس مشکل پڑھائی میں ایک بات مجھے اندر ہی اندر پریشان کرتی ہے۔ میں ایک لڑکے کو پسند کرتی ہوں، اسے بھی مجھ سے محبت ہے۔ میرے گھروالے راضی ہیں لیکن اس کے گھر والوں نے پہلے ہی اس کی منگنی اپنے خاندان میں کردی ہے، اب وہ لڑکا اگر منگنی ختم کرتا ہے پھر بھی اس کے گھر والے خاندان سے باہر رشتہ نہیں کریں گے۔ ان کا خاندان ہم سے بالکل مختلف ہے مگر میں کیا کروں، اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کرسکتی۔ (الف ۔ق)
جواب: لڑکے نے اپنی صورتحال واضح کردی کہ وہ چاہے گا پھر بھی اس کے گھر والے دوسرے خاندان میں شادی نہیں کریں گے۔ آپ کیلئے یہ بات بہت بہتر ہے کہ کسی ایسے خاندان سے تعلق نہیں جوڑا جارہا جو آپ کو ناپسند کرتا ہو، اگر زبردستی یہ رشتہ ہو بھی جاتا تو ساری زندگی مشکل میں گزرتی۔ بعض اوقات مرضی کے خلاف ہونے والے فیصلے انسان کے اپنے حق میں بہت بہتر ہوتے ہیں۔ آپ حقائق کو قبول کرلیں، باوجود اس کے کہ یہ کہنا جتنا آسان ہے، کرنا اتنا ہی مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ ذہنی طور پر صحت رکھنے والے لوگ خلاف مزاج باتوں کو بھی برداشت کرتے ہوئے ان سے سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سفر خواہ کہیں کا بھی ہو اس کی کامیابی کا ایک ہی اصول ہے اور وہ یہ کہ سفر کے آغاز میں اختتام تک اندازہ کرلیا جائے ورنہ پے درپے ایسی مشکلات آتی ہیں کہ خود کو سنبھالنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں